بچوں کی عجیب نفسیات
بچے کسے اچھے نہیں لگتے۔ معصومیت اور شرارت کے یہ پیکر ہر ایک ہی کی آنکھوں کا تارہ ہوتے ہیں۔ بچوں کی نفسیات بھی عجیب ہوتی ہے۔ خوشی میں کھلکھلا کر ہنسنے اور تکلیف میں آنسوئوں سے رونے والے اگر ضد پکڑ لیں تو وہ دھوم مچاتے ہیں کہ دیکھنے والے توبہ کرتے ہیں۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی عادت میں تبدیلیاں بھی واقع ہوتی رہتی ہیں۔ بچے جس طرح خوشی کا اظہار تالیاں بجاکر ہنس کر کرتے ہیں بالکل اسی طرح اپنے غصے اور چڑ کے اظہار کے لئے ان کے پاس بہت سے ذریعے ہوتے ہیں۔ دوسروں کو مارنا، بال کھینچا، دھکا دینا، پیر پٹخ پٹخ کر رونا اور کاٹنا بچوں کے لئے اپنے غصے کے اظہار کے عام طریقے ہیں۔ تقریباً ہر بچہ چھ ماہ سے 5-4سال کی عمر کو پہنچنے تک ان میں سے کسی نہ کسی حرکت کا عادی ضرور ہوتے ہے۔ فی الحال ہم آپ کو یہ بتائیں گے کہ کون سے عوامل ہیں جو بچوں کو کاٹنے جیسی حرکات پر مجبور کرتے ہیں۔
بچوں کا دانتوں سے کاٹنا‘ پانچ وجوہات
کبھی کبھار تو ان کی یہ عادت اتنی پختہ ہو جاتی ہے کہ وہ بے سبب ہی کسی نہ کسی کو اپنے عتاب کا نشانہ بنالیتے ہیں۔ اس حرکت کا نتیجہ خاصی تکلیف دہ صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ خصوصاً نشانہ بننے والا اگر جلد اپنے آپ کو نہ چھڑاسکے تو دانتوں کے تیز اور گہرے نشانات جلد کے اندر تک بن جاتے ہیں اور عموماً خون رسنے لگتا ہے۔ماہرین نفسیات کے خیال میں بچوں کی اس حرکت کے پیچھے پانچ اہم وجوہات موجود ہوتی ہیں جن کے باعث وہ دوسروں کو کاٹتے ہیں۔
پہلی وجہ: بچے چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا ہمیشہ دوسروں کی توجہ کے طالب رہتے ہیں۔ وہ پہلا قدم اٹھائیں تالی بجائیں یا کلمہ یاد کریں کسی بھی کام کے پہلی مرتبہ کئے جانے کے لطف میں وہ ہر اس شخص کو شریک کرنا چاہتے ہیں جو آس پاس موجود ہو اور جب انہیں خاطر خواہ توجہ حاصل نہیں ہوتی تو وہ کسی ایسی حرکت کا سہارا لیتے ہیں جو انہیں فوری طور پر سب کی نظروں کا مرکزبنادے۔ اگرچہ کاٹنا یا مارنا کوئی اچھی حرکات نہیں مگر ان سے بچوں کا مقصد فوراً حاصل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ پکڑنے اور چھڑانے کے مراحل کے بعد ڈانٹ پھٹکار یا سمجھانے بجھانے سے بچوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے کوئی ایسی حرکت کی ہے جس پر سب انہیں ہی دیکھ رہے ہیں اور ان کے لئے یہ توجہ چاہے وہ ڈانٹ ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو قابل قبول ہوتی ہے۔ گھریلو بیرونی مصروفیات کے باعث مائوں کے پاس بچوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے، ان کے ساتھ کھلونوں سے کھیلنے یا ساتھ کھانا کھانے کا وقت نہیں ہوتا جس کے باعث وہ چڑ چڑے اور لڑاکا ہو جاتے ہیں۔احتیاط: ایسی صورت میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ محبت اور توجہ کےساتھ اپنا وقت دیں۔ انہیں اپنی گود میں بٹھا کر باتیں کریں گدگدیاں کرکے ہنسائیں۔ ان کی توتلی باتیں سنیں اور اپنے سامنے بیٹھا کر کھانا کھلائیں۔ تھوڑے سمجھدار بچوں کو قصے کہانیاں سنا کرسلائیں۔
دوسری وجہ: بچوں کو عموماً شراکت پسند نہیں ہوتی خصوصاً پہلوٹی کے بچوں کو اپنے دوسرے بہن یا بھائی کی آمد پسند نہیں ہوتی کیونکہ انہیں ماںباپ کی توجہ بٹ جانے کا خدشہ ہو جاتا ہے بالخصوص ماں چھوٹے بچے کے ساتھ زیادہ مصروف ہو جاتی ہے لہٰذا بڑا بچہ چھوٹے بہن، بھائی کے خلاف غصہ اور رقابت محسوس کرتا ہے اسی طرح بعض بچے شوروغل یا ہجوم پسند نہیں کرتے وہ مجمع سے گھبراتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچے اپنی ذاتی استعمال کی اشیاء مثلاً کپڑوں، کھلونوں یا کتابوں کو کسی اور کے استعمال میں نہیں دیکھ سکتے حتیٰ کہ اپنی اشیاء کو دوسروں کا ہاتھ لگانا بھی انہیں پسند نہیں آتا ان میں احساس ملکیت کوٹ کوٹ کر اسی لئے کرتے ہیں تاکہ کوئی ان کی اشیاء کا آئندہ استعمال نہ کرے۔احتیاط:پہلوٹی کے بچے کو چھوٹے بہن بھائی سے یہ کہہ کر متعارف کروائیں کہ یہ تمہارا چھوٹا سا دوست ہے یا یہ تمہاری منی بہن ہے تم بڑے بھائی ہو۔ بچے دوسروں سے بڑا ہونے کو اپنے لئے معتبر سمجھتے ہیں اور انہیں فخر محسوس ہوتا ہے اور اس طرح وہ اپنے چھوٹے بہن یا بھائی کا خیال رکھنا سیکھتے ہیں۔ اگر بچے کو شوروغل پسند نہیں تو گھر کو حتیٰ الامکان پرسکون رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسروں کو یہ بات پہلے ہی بتا دیں کہ بچے کو زور دار آوازیں پسند نہیں یا وہ ان سے گھبراتا ہے بچے کے استعمال کی اشیا اور کھلونے وغیرہ سمیٹ کر رکھیں نیز بچوں کو بتائیں کہ مل جل کر کھیلنا چاہیے گھر آنے والے مہمان بچوں کو بھی ایسے کھلونوں سے کھیلنے دینا چاہیے تاکہ جب ہم ان کے گھر جائیں تو وہ بھی ہمیں اپنے کھلونوں سے جھلائیں۔
تیسری وجہ: جو بچے بولنا نہیں جانتے و ہ اپنی بات سمجھانے کے لیے یا اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لئے کاٹ لیتے ہیں۔ عموماً بچے ’’ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘ کہنے کے بجائے کاٹ لیتے ہیں۔احتیاط:ایسے بچے جو بولنا نہیں جانتے اور اپنے انکار یا اقرار کے لیے لفظوں کے بجائے کاٹنے کا سہارا لیتے ہیں انہیں خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے بالخصوص جب وہ غصے میں ہوں۔ ایسی صورت حال کو تبدیل کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے جس کے باعث وہ غصے میں آجاتے ہوں اور کاٹ لیتے ہوں۔ بچوں کو سمجھایا جائے کہ وہ کاٹنے کے بجائے لفظوں کا استعمال کریں کاٹنے سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ انہیں ہاں اور نہ کہنا سمجھائیں۔
چوتھی وجہ: بہت چھوٹے بچے کسی بھی شے کی ساخت، بناوٹ اور بالخصوص ذائقہ جانچنے کے لئے اسے اپنے منہ میں ڈال لیتے ہیں وہ کسی بھی شے کو جاننے کے لیے ہاتھوں اور حواس خمسہ کی نسبت منہ کو زیادہ استعمال کرتے ہیں اور اشیاء کو مسوڑھوں یا دانتوں سے کاٹ کر دیکھتے ہیں۔
پانچویں وجہ: چھ ماہ سے تین سال کی عمر کے بچے دودھ کے دانت نکالنے کے عمل کو کم تکلیف دہ اور آسان بنانے کے لئے کاٹتے ہیں۔احتیاط: ایسی صورتحال میں انہیں کوئی ایسا کھلونا دیں جس کی صفائی آسان ہو وہ نرم ہو اور جس کے منہ میں پھنسنے کا اندیشہ نہ ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں